یا صلِ علیٰ ہو نظرِ کرم شہہ کون ومکاں ہو نظر کرم نوری نوری جلوے دکھا دو آقا آنکھیں ہیں پر نم
دکھلا دو روضہء اطہر گنبدِ خضریٰ کا وہ منظر آس لگاۓ ہم بیٹھے ہیں در پہ تمہارے منگتے ہم
ہم ہیں درِ اقدس کے سوالی بدرالدجیٰ یا سیدِ عالی کس کو سنائیں دکھڑے اپنے نورِ خدا یا شاہِ امم
راہوں کی یہ ختم ہو دوری کردو عطا اب جلوے نوری گنبدِ خضریٰ کے صدقے میں دکھیوں کا رکھ لیجۓ بھرم
آقا ہم پہ نوازش کردو لطف و کرم کی بارش کردو بگڑے کام سنور جائیں گے مٹ جائیں گے رنج و الم
ہم بھی مدینے کو آجائیں آکے قدموں میں گر جائیں آرزو عشرتؔ کی ہے آقا در پہ تمہارے مکلے دم