یارسولَ اللہ تیرے چاہنے والوں کی خیر سب غلاموں کا بھلا ہو سب کریں طیبہ کی سیر
کاش کے ہجرِ مدینہ مجھ کو رکھے بیقرار چَین ہی آئے نہ مجھ کویادِطیبہ کے بِغیر
یانبی اب تو مدینے میں مجھے بلوایئے ہو مُیسَّر با ادب پھر آپ کی گلیوں کی سَیر
کاش! طیبہ میں شہادت کا عطا ہو جائے جام جلوۂ محبوب میں انجام میرا ہو بخیر
فالتو باتوں کی عادت دُور ہو جائے حُضُور! ہو زباں پر میری اکثر آپ ہی کا ذکرِ خیر
عائد آقا فردِ عصیاں ہو گئی کر دے کرم کون ہے جو بخشوائے گا مجھے تیرے بِغیر
تیز ہے تلوار کی بھی دھار سے یہ پُلْ صراط تم سنبھالا دو کہیں جائے پھسل میرا نہ پَیر
اُمّتِ محبوب کا یارب بنا دے خیر خواہ نفس کی خاطِر کسی سے دل میں میرے ہو نہ بَیر
جام ایسا اپنی الفت کا پِلا دے ساقیا نعت سن کر حالتِ عطّارؔ ہو رو رو کے غَیر