یارسولَ اللہ! مجرم حاضِرِ دربار ہے نیکیاں پلّے نہیں سر پر گُنہ کا بار ہے
نامۂ اعمال میں کوئی نہیں حُسنِ عمل پاس دولت نیکیوں کی کچھ نہیں نادار ہے
تم شہِ ابرار یہ سب سے بڑا عِصیاں شِعار یوں شَفاعت کا یِہی سب سے بڑا حقدار ہے
کردو مالا مال آقا دولتِ اَخلاق سے خُلق کی دولت سے یہ محروم و بدگُفتار ہے
اِس کی آنکھیں پاک کر کے جلوۂ زَیبا دکھا ایک مدّت سے یہ تیرا طالبِ دیدار ہے
گنبدِ خَضرا پہ آقا جاں مِری قربان ہو میری دیرینہ یہی حسرت شہِ اَبرار ہے
مسکراتے آؤ آقا آکے کلمہ بھی پڑھاؤ ہو کرم شاہِ مدینہ! جاں بلب بیمار ہے
آفتوں نے گھیر رکھا ہے شہا ہر سمت سے مُلتجی چشمِ کرم کا بیکس و ناچار ہے
جو ترے در پر جھکا وہ سر بُلندی پاگیا جو اکڑ کررہ گیا بے شک ذلیل وخوار ہے
دشمنوں کے ظلم حد سے بھی تجاوُز کر گئے آپ سے فریاد مولیٰ حیدرِ کرّار ہے
قلبِ مُضطَر چشمِ تر سوزِ جگر سینہ تَپاں طالبِ آہ و فُغاں جانِ جہاں عطارؔ ہے
سب گنہگار اِک طرف عطارؔ اکیلا اک طرف مجرموں میں منتخب مجرِم یِہی عطارؔ ہے