یانبی مجھ کو مدینے میں بُلانا باربار باربار آؤں بنے آخِر مدینے میں مزار
ہیں ہوائیں مہکی مہکی تَو فَضائیں خوشگوار ذرّہ ذرّہ ہے مدینے کا یقینا نوربار
کاش جب آؤں مدینے خوب طاری ہو جُنُوں ہو گرِیباں چاک سینہ چاک دامن تارتار
مال کی کثرت کا تخت و تاج کا طالِب نہیں ہو عطا خَستہ جگر اور آنکھ دے دو اشکبار
واسِطہ سِبْطَین کا میرا گناہوں کا مَرض دور کر دیجے خدارا اے طبیبِ ذی وقار
فکرِنَزعِ روح و قبر و حشر سے بچ جاتا گر کاش ہوتا آپ کی گلیوں کا میں گرد و غبار
آہ چھایا ہے گناہوں کا اندھیرا چار سو ہو نگاہِ نور مجھ پر یاشہِ عالم مدار
کاش یاوَہ گوئی بد اَخلاقی اور بے جا ہنسی کی مری سب عادتیں چھوٹیں مرے پروردگار
مثلِ بسمل میں تڑپتا ہی رہوں سرکار کاش! آپ کے غم میں رہوں آقا ہمیشہ دلفِگار
دولتِ دنیا سے بے رغبت مجھے کر دیجئے میری حاجت سے مجھے زائد نہ کرنا مالدار
ہو مدینہ ہی مدینہ ہر گھڑی وِردِ زَباں بس مدینہ ہی کی ہو تکرار لب پر باربار
گنبدِ خضرا کی ٹھنڈی ٹھنڈی چھاؤں میں مِرا خاتِمہ بِالخیر ہو اے کاش! میرے کِردگار
اے مِرے آقا عزیزوں نے جسے ٹھکرا دیا اس کو قدموں سے لگا لو غمزدوں کے غمگسار
عرصئہ محشر میں آقا لاج رکھنا آپ ہی دامنِ عطّارؔ ہے سرکار بے حد داغدار