وفورِ عشق سے سینوں میں اضطراب رہے نظر میں گنبد خضریٰ کی آب و تاب رہے
زمانہ سارا پھرا دربدر مگر وہ لوگ جو تیرے دائرے میں آۓ کامیاب رہے
ہمارے دل کو میسر رہی کلیدِ درود سو ہم پہ سبھی آسانیوں کے باب رہے
یہی جزاۓ سخن ہے یہی ہے حرفِ دعا کہ بارگاہِ محمدؐ میں باریاب رہے
یہی دعا ہے کہ سینہ رہے معطر یوں کہ دل میں تازہ عقیدت کا یہ گلاب رہے
وہ اسم پاک پڑھوں اور کیسے ممکن رہے کہ دل پہ وہم و گماں کا کوئی حجاب رہے