تو شمع رسالت ہے عالم تیرا پروانہ تو ماہِ نبوت ہے اے جلوۂ جانانہ
سرشار مجھے کر دے اک جام لبالب سے تا حشر رہے ساقی آباد یہ میخانہ
دل اپنے چمک اٹھیں ایمان کی طلعت سے کے آنکھیں بھی نورانی اے جلوۂ جانانہ
کیوں زلف معنبر سے کوچے نہ مہک اٹھتے ہے پنجۂ قدرت جب زلفوں کی تری شانہ
ہر پھول میں بو تیری ہر شمع میں ضو تیری بلبل ہے تیرا بلبل پروانہ ہے پروانہ
سنگِ در جاناں پر کرتا ہوں جبیں سائی سجدہ نہ سمجھ زاہد سر دیتا ہوں نذرانہ
معمور اسے فرما ویراں ہے دلِ نوری جلوے تیرے بس جائیں آباد ہو ویرانہ