تیرے دیار کے احسان بھولتے ہی نہیں عنایتوں کے وہ سامان بھولتے ہی نہیں
وہ جالیاں ، وہ دریچے وہ ممبر و محراب وہ در ، وہ روضہ ، وہ دربان بھولتے ہی نہیں
جبیں پہ نور ، نظر میں ادب ، دلوں میں گداز حریمِ ناز کے مہمان بھولتے ہی نہیں
بوقتِ اذنِ حضوری ، وہ آنسوؤں کی تڑپ وہ آرزوئیں ، وہ ارمان بھولتے ہی نہیں
ملائکہ بھی یہ جنت میں جا کہ کہتے ہیں کہ اُس نگر کے خیابان بھولتے ہی نہیں
نظر بدل گئی ، منظر بدل گئے سارے تیری نگاہ کے فیضان بھولتے ہی نہیں