سوۓ بطحیٰ یہ سمجھ کر ہیں زمانےجاتے یہ وہ روضہ ہے جہاں دل نہیں توڑے جاتے
پردہ میم کے اسرار جو کھولےجاتے دو جہاں نور محمد میں نہاۓ جاتے
رہتے سرکارکے کیا خلق سے جانےجاتے سب پہ اسرار محبت نہیں کھولے جاتے
مانع حشر ہے آقا کا نہ سمجھا جانا حشر ہو جاتا اگر واقعی سمجھے جاتے
سیرت پاک سے قرآں جو نہ روشن ہوتا صرف الفاظ ہی رہ جاتے تھے معنی جاتے
جسم کے ساتھ اٹھاۓ گۓ جبکہ عیسیٰ نورِ کل کیوں شب اسریٰ نہ بدن سے جاتے
ان کے کردار کا قد ناپ رہی ہے دنیا جن کے دیوانوں کے قد تک نہیں ناپےجاتے
بھول جاتے تھے صحابہ غم و آلام اپنے دیکھ لیتے تھے جو سرکارکو آتے جاتے