شجر حجر تمہیں جھک کر سلام کرتے ہیں یہ بے زبان تمہیں سے کلام کرتے ہیں
زمیں کو عرشِ معلیٰ ہے تیرا گنبدِ سبز تری گلی میں فرشتے قیام کرتے ہیں
مسافروں کو ترا در ہے منزلِ آخر یہیں سب اپنی مسافت تمام کرتے ہیں
جنہیں جہاں میں کہیں بھی اماں نہیں ملتی وہ قافلے یہاں آکر قیام کرتے ہیں
نظر میں پھرتے ہیں تیرے دیار کے منظر اسی نواح میں ہم صبح و شام کرتے ہیں
سکونِ دل کی انہیں سے امید ہے ناصر جو اپنا فیض غریبوں پہ عام کرتے ہیں