شفاعتوں کے فلک پر عجب سحاب کھلے زمیں نہال ہوئی رحمتوں کے باب کھلے
نصیب خلق ہوئی آفتاب علم کی دھوپ جمالِ حرف و معانی کے تازہ باب کھلے
مصافِ جنگ و جد ہو کہ شہرِ امن و اماں تری بلندی، کردار کے نصاب کھلے
ترے جمال سے شرمندہ جلوۃ خورشید ترے حضور نہ احرام آفتاب کھلے
تو سائبان کی صورت محیط عالم پر کرن کرن کی ترے سامنے طناب کھلے
ہمارے نام کے آگے بھی حرفِ بخشش لکھ کہ سرفراز ہوں ہم جب تری کتاب کھلے
میں اس امید پہ کرتا ہوں نعت نذر حبیبؐ کہ میرے واسطے محسنؔ درِ ثواب کھلے