سرور سے دل لہک رہا ہے درود سے روح کِھل اٹھی ہے کسی کی آمد کا سلسلہ ہے ہوا مسلسل مہک رہی ہے
ہوا اسی کی مکاں مکاں ہےصدا اسی کی گلی گلی ہے اسی سے دم دم کا واسطہ ہے اسی سے دلڑی لگی ہوئی ہے
کہاں علم کوئی دھر سکے گا کہاں کوئی مدح کرسکے گا کلام اعلیٰ ہے حمدِ والا لڑی لڑی سے ملی ہوئی ہے
مآل رسوا کسے دکھاؤں سکوں کے لمحے کہاں سے لاؤں گراں ہماری صدی صدی ہے کڑی ہماری گھڑی گھڑی ہے
ہوس کی وادی گماں کا صحرا کہاں کہاں سرگرداں رہے ہو اُمم اُمم کے لیے وہی راہِ حمدی راہِ دائمی ہے
درود کی لَے سے لَے ملا کر اک آدمی مدح کر رہا ہے ولاۓ سرکار کا سوالی گداۓ سرکار، الوریٰ ہے