سرکار کے قدموں پہ یہ سر کیسا لگے گا وہ آئیں میرے گھر میں تو گھر کیسا لگے گا
بتلاۓ کوئی جب ہو تصور میں مدینہ ایسے میں مدینےکا سفر کیسا لگےگا
اللہ کرےمیرا مدینےمیں ہو مسکن پرنورفضاؤں کا نگرکیسا لگے گا
سرکار کےدروازےپہ کس طرح میں مانگوں اُس در پہ میرا دیدۃ تر کیسا لگے گا
جس در پہ ہے منگتوں کےلۓ مرنا بھی جینا سلطانِ مدینہ کا وہ در کیسا لگے گا
یہ زیست کے لمحات گزر جائیں گےلیکن گزرے جو مدینے وہ پہر کیسا لگے گا
میں سوچتا رہتا ہوں انہیں پیش کردوں کیا نذرانہء جاں کا یہ گہر کیسا لگے گا
کچھ مانگنے کی قید نہیں گرچہ نیازیؔ سائل کے لیے وقتِ سحر کیسا لگے گا