سدا بیٹھےرہیں بسترلگاکر ان کے کوچے میں نہ سوچیں واپسی کی راہ جا کراُن کےکوچےمیں
نہ کوئی آرزو آۓگی لب پر پھر دعا بن کر ہمیں چھوٹا ساگھرمولاعطاکران کے کوچےمیں
خدا انوار و رحمت کے خزینےکھول دیتا ہے خطاکاروں فقیروں کو بلا کراُن کےکوچے میں
صدا کرنی درِمحبوب پر اچھی نہیں لگتی فقط مانگو نظراپنی جھکاکراُن کےکوچےمیں
ہزاروں تاجور لاکھوں سکندرہم نے دیکھےہیں پڑے ہیں دل کےدامن کو بچھا کراُن کےکوچےمیں
درِ محبوب سے انوار کی خیرات لینے کو نگاہوں کےچلوکاسے بنا کر اُن کے کوچے میں
مری بےتاب حسرت کو قرار آجاۓ گا ناصرؔ ہوا لےجاۓ گرمجھ کو اڑاکران کےکوچےمیں