سبوۓ جاں میں چھلکتا ہے کیمیا کی طرح کوئی شراب نہیں عشقِ مصطفیٰؐ کی طرح
قدح گسار ہیں اس کی اماں میں جس کا وجود سفینہء دوسرا میں ہے ناخدا کی طرح
وہ جس کے لطف سے کھلتا ہے غنچہء ادراک وہ جس کا نام نسیم گرہ کشا کی طرح
طلسم جاں میں وہ آئینہ دار محبوبی حریم عرش میں وہ یار آشنا کی طرح
وہ جس کا جذب تھا بیداریء جہاں کا سبب وہ جس کا عزم تھا دستور ارتقا کی طرح
وہ جس کا سلسلۃ جود ابر گوہر بار وہ جس کا دستِ عطا مصدر عطا کی طرح
خزاں کے حجلہء ویراں میں وہ شگفتِ بہار فنا کے دشت میں وہ روضہء بقا کی طرح
بسیط جس کی جلالت حمل سے میزاں تک محیط جس کی سعادت خطِ سما کی طرح
سوادِ صبح ازل جس کے راستے کا غبار طلسمِ لوح ابد جس کے نقشِ پا کی طرح
وہ عرش و فرش و زمان و مکاں کا نقشِ مراد وہ ابتدا کے مقابل وہ انتہا کی طرح