قلب میں عشقِ آل رکھا ہے خوب اِس کو سنبھال رکھا ہے
ایسا جُود و نَوال رکھا ہے سب غلاموں کو پال رکھا ہے
شکر تیرا کہ ان کی اُمّت میں مجھ کو اے ذُوالجلال رکھا ہے
جمع کر کے کبھی نہ سَروَر نے کوئی مال و مَنَال رکھا ہے
حُبِّ دنیا نے یارسولَ اللہ مجھ کو مشِکل میں ڈال رکھا ہے
جو بھی دیکھے بنے وہ دیوانہ اُن میں ایسا جمال رکھا ہے
جلد لیجے خبر گناہوں کے درد نے کر نِڈھال رکھا ہے
ایسا دو عشق سب کہیں اِس کے دل میں سوزِ بِلال رکھا ہے
نارِ دوزخ جلائے گی کیوں کر دل میں عشق اُن کا ڈال رکھا ہے
ہوں گنہگار پر غلاموں میں تم نے اب بھی بحال رکھا ہے
میں نثار آپ نے سدا میرا ہر قدم پر خیال رکھا ہے
میں جہنَّم میں گر گیا ہوتا آپ ہی نے سنبھال رکھا ہے
مصطَفٰے نے ہمارے عیبوں پر پردہ دامن کا ڈال رکھا ہے
شکریہ تم نے آل کا صدقہ میری جھولی میں ڈال رکھا ہے ’’ چل مدینہ‘‘ کی بھیک مل جائے عاشِقوں نے سُوال رکھا ہے
دیدو زادِ سفر مدینے کا سائلوں نے سُوال رکھا ہے
دیکھو دیوانو! سبز گنبد میں کیسا حُسن و جمال رکھا ہے
کیوں جہنَّم میں جاؤں سینے میں عشقِ اَصحاب و آل رکھا ہے
میں کبھی کا بھٹک گیا ہوتا آپ ہی نے سنبھال رکھا ہے
عاشقِ مال اِس میں سوچ آخِر کیا عُروج و کمال رکھا ہے؟
تجھ کو مل جائے گا جو قسمت میں تیری، رزقِ حلال رکھا ہے
اِس جہاں کے کمال میں بے شک اِک نہ اک دن زوال رکھا ہے
تجھ سے آقا ترے سُوالی نے مغفِرت کا سُوال رکھا ہے
سُن لو شیطاں نے ہر سُو شہوت کا خوب پھیلا کے جال رکھا ہے
جنَّتی ہے وہ جس نے سنّت کے خود کو سانچے میں ڈھال رکھا ہے
جو ہے گستاخِ مُصطَفٰے اُس کو میں نے دِل سے نِکال رکھا ہے
کس قدر بختور ہے وہ مومن جس کے پاس اُن کا بال رکھا ہے
مفلسی کا میں کیوں کروں شکوہ نعمتوں سے نِہال رکھا ہے
مال کی حِرص مت کرو اِس میں دو جہاں کا وبال رکھا ہے
یہ کرم ہی تو ان کا ہے عطارؔ تجھ نکمّے کو پال رکھا ہے