پھر اہلِ حرم سے ملاقات ہوتی پھر اشکوں سے کچھ شرح جذبات ہوتی
دم دید پھر جلوۃ نو بہ نو سے مرے چشم و دل کی مدارات ہوتی
مدینے کی پُرنور دلکش فضا میں نظر محو دید مقامات ہوتی
اُدھر جلوہ گر قبہء نور ہوتا دل افروز ادھر چاندنی رات ہوتی
مدینہ کے احباب ہمراہ ہوتے شب ماہ میں سیرِ باغات ہوتی
نظر مستِ صہباۓ دیدار رہتی زباں وقفِ حرف و حکایات ہوتی
خیر کچھ نہ رہتی زمین و زماں کی وہ محویتِ خاص دن رات ہوتی
پہنچ جائیں پائینِ اقدس کی جانب یہی آرزو اکثر اوقات ہوتی
تصور میں وہ مصحفِ پاک ہوتا نگاہوں میں تنویرِ آیات ہوتی
دعاؤں میں جامیؔ کے اشعار پڑھتے نظامی کی لب پر مناجات ہوتی