پاؤں وہ آنکھ تجھ سے اے پروردگار میں روتا رہوں غمِ نبی میں زار زار میں
دن رات ہجرِ شاہ میں آہیں بھرا کروں رویا کروں فِراق میں زاروقِطار میں
کہنا نہ حج مبارَک اے اہلِ وطن مجھے ہائے فِراقِ طیبہ سے ہوں دلفِگار میں
داغِ مُفارَقت تو ملا کاش! اب ایسا ہو رویا کروں فِراق میں زاروقِطار میں
سینہ تَپاں عطا ہو ملے قلبِ مُضطَرِب غم میں تمہارے کاش! رہوں بے قرار میں
دشتِ حرم پہ واری میں ، قُمری چمن پہ تُو تُو پھول لے لے طیبہ کا لیتا ہوں خار میں
وہ دن اب آئے خیر سے یاربِّ مصطَفٰے سُوئے مدینہ چل پڑوں پھر اشکبار میں
جوں ہی مجھے حبیب کا جلوہ نصیب ہو اے کاش! جان اُس گھڑی کردوں نثار میں
زُہدووَرَع میں یانبی تم بے مثال ہو بے حد گناہگار میں عصیاں شِعار میں
گم ہو کے عشقِ مصطَفٰے میں اے خدائے پاک کرتا رہوں بیان سدا اشکبار میں
تبلیغِ دین کے لیے در در پھروں اے کاش! طالب ہوں ایسے ولولے کا کردگار میں
عطارؔ نیکیاں نہ تھیں زادِ سفر میں کچھ لے کر گیا تھا در پہ بس اشکوں کا ہار میں