نہ کیونکر مطلعِ دیواں ہو مطلع مہر وحدت کا؟ کہ ہاتھ آیا ہے مصرعہ مجھ کو انگشتِ شہادت کا
غضب سے تیرے ڈرتو ہوں رضا کی تیری خواہش ہے نہ میں بیزار دوزخ سے نہ میں مشتاق جنت کا
نہ پوچھو گرمئ شوقِ ثنا کی آتش افروزی بنا جاتا ہے دستِ عجز شعلہ شمعِ فکریت کا
فروغِ جلوۃ توحید کو وہ برقِ جولاں کر کہ خرمن پھونک دیوے ہستی اہلِ ضلالت کا
مرا جوہر ہو سر تا پا صفاۓ مہرِ پیغمبرؐ مرا حیرت زدہ دل آئینہ خانہ ہو سنت کا
امیرِ لشکرِ اسلام کا محکوم ہوں یعنی اردہ ہے مرا فوجِ ملائک پر حکومت کا
زمانہ مہدیِ موعود کا پایا اگر مومن تو سب سے پہلے تو کہیو سلام پاک حضرت کا