مَسرَّت سے سینہ مدینہ بنا تھا مزہ خوب رَمضان میں آرہا تھا
پَرے رَنج و غم کا اندھیرا ہوا تھا مزہ خوب رَمضان میں آرہا تھا
خبر جب کہ رَمضاں کی آمد کی آئی تو مُرجھائے دل کی کلی مسکرائی
کیا ابرِ کرم نور برسا رہا تھا مزہ خوب رَمضان میں آرہا تھا
نظر چاند رَمضاں کا جس وقت آیا ہُوا رَحمتوں کا زمانے پہ سایہ
اُفُق پر بھی ابرِ کرم چھا گیا تھا مزہ خوب رَمضان میں آرہا تھا
کھلے بابِ جنَّت ، جہنَّم کو تالے پڑے، ہر طرف تھے اُجالے اُجالے
وہ مَردُود شیطان قیدی بنا تھا مزہ خوب رَمضان میں آرہا تھا
ترانے خوشی کے فَضا گُنگُناتی ہَوا بھی مَسرَّت کے نغمے سناتی
جدھر دیکھئے مرحبا مرحبا تھا مزہ خوب رَمضان میں آرہا تھا
فَضائیں بھی کیا نور برسا رہی تھیں ہوائیں مَسرَّت سے اِٹھلا رہی تھیں
سماں ہر طرف کیف و مَستی بھرا تھا مزہ خوب رَمضان میں آرہا تھا
شب و روز رَحمت کی برسات ہوتی عطاؤں کی جھولی میں خیرات ہوتی
مسلماں کا دامن کرم سے بھرا تھا مزہ خوب رَمضان میں آرہا تھا
جو اُلفت کے پیمانے تقسیم ہوتے تو بخشش کے پروانے تَرقِیم ہوتے
خُوشا! بحرِ رحمت کو جوش آگیا تھا مزہ خوب رَمضان میں آرہا تھا
مساجِد میں ہر سُو بہار آگئی تھی خدا کے کرم کی گھٹا چھا گئی تھی
جسے دیکھو سجدے میں آکر گرا تھا مزہ خوب رَمضان میں آرہا تھا
فَضائیں منوّر ہوائیں معطَّر خدا کی قسم تھا سماں کیف آور
دلوں پر بھی اِک وَجد سا چھا گیا تھا مزہ خوب رَمضان میں آرہا تھا
کلیجے میں ٹھنڈک تھی ، چہرے پہ پانی دلوں میں بھی تھی کس قَدَر شادمانی
سُکوں ماہِ رَمضاں میں کیسا ملا تھا مزہ خوب رَمضان میں آرہا تھا
مسلماں تھے خوش رُخ پہ رونق بڑی تھی خدا کے کرم کی برستی جھڑی تھی
عبادت میں دل کس قَدَر لگ گیا تھا مزہ خوب رَمضان میں آرہا تھا
سرِ شام اِفطار کی رونقیں تھیں بوقتِ سَحَر کس قَدَر بَرَکتیں تھیں
سُرور آرہا تھا مزہ آرہا تھا مزہ خوب رَمضان میں آرہا تھا
مقدّر نے کی یاوَری ساتھ جن کے مساجِد میں وہ مُعتَکِف ہو گئے تھے
عبادت کا کیا خوب جذبہ ملا تھا مزہ خوب رَمضان میں آرہا تھا
عبادت میں عُشّاق لذّت تھے پاتے ادب سے تلاوت میں سر کو جُھکاتے
نَمازوں کا روزوں کا بھی اک مز¦ تھا مزہ خوب رَمضان میں آرہا تھا
مُناجاتِ اِفطار میں رِقَّتیں تھیں دعاؤں میں بھی کس قَدَرلَذَّتیں تھیں
کوئی گِڑگِڑاتا کوئی چِیختا تھا مزہ خوب رَمضان میں آرہا تھا
ثنا خوان جس وقت نعتیں سناتے تو آقا کے عُشّاق آنسو بہاتے
نشہ خوب عِشقِ نبی کا چڑھا تھا مزہ خوب رَمضان میں آرہا تھا
مبلّغ عذابوں سے جس دَم ڈراتا کوئی کپکپاتا کوئی تَھرتَھراتا
کوئی گِڑگِڑاتا کوئی چِیختا تھا مزہ خوب رَمضان میں آرہا تھا
گھڑی جبکہ رَمَضاں کی رُخصت کی آئی تڑپتے تھے صدمے سے اسلامی بھائی
بِلکتا تھا کوئی ، کوئی غمزدہ تھا مزہ خوب رَمضان میں آرہا تھا
دمِ رخصتِ ماہِ رَمضاں مسلماں تھے غمگین و حَیراں ، پریشاں پریشاں
شبِ عید دیکھو جسے رو رہا تھا مزہ خوب رَمضان میں آرہا تھا
مجھے ماہِ رَمضاں کا غم دے الٰہی مِٹا حُبِّ دنیا کی دل سے سیاہی
مزہ فانی سَنسار میں کیا رکھا تھا مزہ خوب رَمضان میں آرہا تھا
جو تھے مُعتَکِف ’’ مَدنی مرکز‘‘ کے اندر بِچارے تھے عطّارؔ مغموم و مُضطَر
دمِ الوَداع ان کا دل جل رہا تھا مزہ خوب رَمضان میں آرہا تھا