مجھے اُس کی قِسمت پہ رَشک آرہا ہے مدینے کا جس کو بُلاوا مِلا ہے
یہ جو ہِچکیاں باندھ کر رَو رہا ہے غمِ ہِجْر نے اِس کو تڑپا دیا ہے
طبیبو! تُمہارا یہاں کام کیا ہے! کہ یہ تو مریضِ حبیبِ خُدا ہے
تِرے عاشِقوں کو قرار آئے کیونکر؟ مدینے سے دُوری بڑی جانگُزا ہے
بُلالو! اِسی سال آقا بُلالو! شہا! حج کا موسِم قریب آرہا ہے
تِرے دَر کے ہوتے کہاں جائیں آقا کہ تُو ہی غریبوں کا اِک آسرا ہے
ہماری تمنّائیں بر آئیں مولیٰ! ہمارا تو سب حال تم پر کُھلا ہے
سَفینہ کبھی کا مِرا ڈوب جاتا تِری رحمتوں نے سہارا دیا ہے
نگاہِ کرم حَالِ خَستہ جِگر پر تَسَلسُل گُنہ کا بڑھا جارہا ہے
شِفا دو گناہوں کے اَمْراض سے اَب کہ بیمارِ عِصیاں مَرا جارہا ہے
غمِ دو جہاں سے چُھڑا کے خُدایا غمِ مُصطفٰے دے یِہی اِلتِجا ہے
مدینہ ہو سینہ تو سینہ مدینہ مِری زندگی کا یہی مُدَّعا ہے
رہے وِردِ لب بس مدینہ مدینہ یہی آرزُو یارَسُولِ خُدا ہے
مُبلِّغ بنوں کاش! میں سُنّتوں کا سَدا دیں کی خدمت کروں یہ دُعا ہے
حبیبِ خُدا آکے چمکائیے اب اندھیرا مِری قَبر میں چَھا رہا ہے
پئے پِیر و مُرشِد بقیعِ مُبارَک عطا ہو یہ ٹوٹے دِلوں کی صَدا ہے
شہا! مُسکراتے ہوئے آبھی جَاؤ! کہ دِل شَورِ محشر سے گھبرا رہا ہے
شہا! اپنی جنّت میں قدموں میں رکھنا یہی عَاجِزانہ مِری اِلْتِجا ہے
نہ قدموں سے عطاّرؔ کو دُور کرنا یہ تیرا گدا ہے بھلا یا بُرا ہے