مجھے تو صرف اتنا ہی یقیں ہے مرا تو بس یہی ایمان و دیں ہے
اگر تم مقصدِ عالم نہیں ہو تو پھر کچھ مقصدِ عالم نہیں ہے
نہیں میں واقفِ سرِ الہیٰ مگر دل میں یہ نکتہ جاگزیں ہے
جو دل انوار سے ان کے ہے روشن وہی کعبہ وہی عرشِ بریں ہے
یہ سمجھے معنی لولاک میں نے کہ ہستی بخششِ جاں آفریں ہے
مگر آزارِ ہستی کا مداوا عطاۓ رحمت للعالمیں ہے
وہ شہر بے حصار ان کا، مدینہ کہ جس کی خاک ارمانِ جبیں ہے
نہ سمجھو ہم کو محروم نظارہ وہ حسن اب بھی نگاہوں کے قریں ہے
کہ دل میں ماسواۓ اسمِ احمدؐ نہیں ہے، کچھ نہیں ہے، کچھ نہیں ہے