مجھے بُلالو شہِ مدینہ، یہ ہِجر کا غم ستا رہا ہے میں درپہ آؤں یِہی تو اَرمان دل میں طُوفاں مچا رہا ہے
ہے سہنا دُشوار یہ جُدائی، مِری ہو در تک شہا رَسائی نہیں بھروسا ہے زندگی کا ،یہ دل مِرا ڈوبا جارہا ہے
نہیں تمنائے مال و دولت، نہیں مجھے خواہشِ حُکومت مِری نظر میں حسین و دلکش، وہ سبز گنبد سما رہا ہے
یہی تو حسرت رہی ہے دل میں، مجھے اَجَل بھی وہیں پہ آئے جہاں پہ آقا ہے پیارا روضہ، یہی تو ارماں سدا رہا ہے
ہے جھولی خالی اے شاہِ عالی کھڑا ہے در پر تِرا سُوالی غریب منگتا مُرادیں لینے، کو ہاتھ گندے بڑھا رہا ہے
اے بینواؤ!گداؤ آؤ!، پَسارے دامن صَفیں بناؤ خزانہ رَحمت کا بانٹتا وہ، خدا کا محبوب آرہا ہے
گدائے در جاں بَلب ہے آقا، نِقاب اُٹھاؤ دکھا دو جلوہ ہو ِتشنۂ دیدپر عنایت، جہاں سے پیاسا ہی جارہا ہے
میں گورِ تِیرہ میں آپڑا ہوں ، فِرِشتے بھی آچکے ہیں سر پر چلے گئے ناز اٹھانے والے، تِرا ہی اب آسرا رہا ہے
ہے نَفسی نَفسی چَہار جانِب، نثار جاؤں کہاں ہو مولیٰ چُھپا لو دامن میں پیارے آقا، یہ شورِ محشر ڈرا رہا ہے
خدائے غفّار بخش دے اب حبیب کی لاج رکھ ہی لے اب ہمارا غم خوار فکرِ اُمّت، میں دیکھ آنسو بہارہا ہے
صَباجو پَھیرا ہو کُوئے جاناں ، تو غمزدہ کا سلام کہنا یہ عرض کرنا غریب عطارؔ کب مدینے کو آرہا ہے