محبتوں کا اُجالا اگر کہیں پر ہے چراغ اس کا مدینے کی سرزمیں پر ہے
فروغ فصلِ بہاراں اسی چمن سے ہے نزولِ بارش ابرِ کرم یہیں پر ہے
مرے لیے وہ کفِ دستِ مہرباں ہے بہت کہ لمس جس کا ازل سے مری جبیں پر ہے
رداۓ بارِ امانت کے بعد بھی اب تک ہزار کوہِ گراں شانۃ امیں پر ہے
غلامی شہِ بطحا مرا تعارف ہے کرم یہ کتنا بڑا مجھ سے کم تریں پر ہے