مٹتے ہیں جہاں بھر کے آلام مدینے میں بگڑے ہوئے بنتے ہیں سب کام مدینے میں
آقا کی عنایت ہے ہرگام مدینے میں ہوتا نہیں کوئی بھی ناکام مدینے میں
اے حاجیو! رو رو کر کہدینا سلام ان سے لے جاؤ غریبوں کا پیغام مدینے میں
آجاؤ گنہگارو بے خوف چلے آؤ سرکار کی رحمت تو ہے عا م مدینے میں
وہ شافِعِ محشر تو بُلوا کے غلاموں کو دیتے ہیں شَفاعت کا اِنعام مدینے میں
چھیڑو نہ طبیبو تم بیمارِمدینہ کو اِس کو تو ملے گا بس آرام مدینے میں
جتنے بھی مبلِّغ ہیں ہو خاص کرم اُن پر سب آئیں شَہَنشاہِ اِسلام مدینے میں
دربار میں جب پہنچوں اے کاش! شہا اُس دم دیدار کا ہو جائے اِنعام مدینے میں
اے کاش! کہ رو رو کر دم توڑ دوں قدموں میں ہو جائے مِرا بِالخیر انجام مدینے میں
اللہ قِیامت تک جس کا نہ خُمار اُترے اُلفت کا پیوں ایسا اِک جام مدینے میں
اے کاش! تڑپ کر میں سرکار لگوں گرنے اور آپ مجھے بڑھ کر لیں تھام مدینے میں
بُلوا کے بقیع آقا حَسنَین کے صدقے میں عیدی میں عطا کر دو اِنعام مدینے میں
وہ اپنے غلاموں کو شفقت سے پلاتے ہیں بھر بھر کے مئے الفت کے جام مدینے میں
انساں کے بجائے میں اے کاش! مقدَّر سے ہوتا کوئی ادنیٰ سگ گمنام مدینے میں
جب شاہِ مدینہ نے پردہ کیا دنیا سے وَاللہ گیا تھا مچ کُہرام مدینے میں
عطارؔ پہ اب ایسا اے کاش! کرم ہو جائے مکّے میں سَحَر گزرے تو شام مدینے میں