ملی تقدیر سے مجھ کو صَحابہ کی ثناخوانی ملا ہے فیضِ عثمانی مِلا ہے فیضِ عثمانی
رکھا مَحصور ان کو بند ان پر کر دیا پانی شہادت حضرتِ عثمان کی بے شک ہے لاثانی
نبی کے نور دو لیکر وہ ذُوالنُّورَین کہلائے انہیں حاصل ہوئی یوں قُربتِ محبوبِ رحمانی
نبی نے تیرے بدلے ’’بیعتِ رضواں ‘‘میں کی بیعت کہا قرآن نے دستِ نبی کو دستِ یزدانی
تمہیں کو جامعِ قرآن کا حق نے دیا منصب عطا قرآں کو کر کے جمع کی اُمّت کو آسانی
خدابھی اور نبی بھی خود علی بھی اس سے ہیں ناراض عَدو اُن کا اُٹھائے گا قِیامت میں پریشانی
عداوت اور کینہ ان سے جو رکھتا ہے سینے میں وُہی بد بخت ہے مَلعون ہے مردود شیطانی
ہم ان کی یادکی د ھومیں مچائیں گے قیامت تک پڑے ہوجائیں جل کر خاک سب ا عدائے عثمانی
امامَ الاسخیا! کر دو عطا حصہ سخاوت کا قناعت ہو عنایت،دَیں نہ دولت کی فِراوانی
مجھے اپنی سخاوت کے سمندر سے کوئی قطرہ عطا کر دو نہیں درکار مجھ کو تاجِ سلطانی
عُلوِّشان کاکیوں کر بیاں ہو آپ کی پیارے حیا کرتی ہے مولیٰ آپ سے مخلوقِ نورانی
سُخن آکر یہاں عطارؔ کا اِتمام کو پہنچا تِری عظمت پہ ناطِق اب بھی ہیں آیاتِ قرآنی