مل گئی کیسی سعادت مل گئی مجھ کو اب حج کی اجازت مل گئی
پھر مدینے کا سفر دَرپیش ہے پھر مدینے کی اجازت مل گئی
میرے مَدنی پیر و مُرشِد کے طُفیل پھر مدینے کی اجازت مل گئی
کیوں نہ جھوموں کیوں نہ لوٹوں مجھ کو تو پھر مدینے کی اجازت مل گئی
میں خوشی سے مر نہ جاؤں اب کہیں پھر مدینے کی اجازت مل گئی
دیدے یارب! مجھ کو توفیقِ ادب پھر مدینے کی اجازت مل گئی
رونے والی آنکھ دیدے یاخدا! پھر مدینے کی اجازت مل گئی
یاالٰہی قلبِ مُضطَر ہو عطا پھر مدینے کی اجازت مل گئی
اب تو دیدے یاخدا ذَوقِ جُنوں پھر مدینے کی اجازت مل گئی
یاخدا دیدے تڑپنے کی ادا پھر مدینے کی اجازت مل گئی
آتَشِ شوق اور کر دے تیز تر پھر مدینے کی اجازت مل گئی
ہو عطا سوزِ بِلال اے ذُوالجلال پھر مدینے کی اجازت مل گئی
ان کے جلوے دیکھ لے وہ آنکھ دے پھر مدینے کی اجازت مل گئی
یاالٰہی! تُو عطا کر دے بقیع پھر مدینے کی اجازت مل گئی
مل گیا جس کو بقیعِ پاک اُسے قُربتِ ماہِ رِسالت مل گئی
جھومو جھومو خوب جھومو زائرو! کیا مِلا در اُن کا جنّت مل گئی
قبرِانور کی زیارت جس نے کی اُس کو آقا کی شَفاعت مل گئی
عرش پر تو گُنبدِ خَضرا کہاں ! فرش تجھ کو یہ سعادت مل گئی
رو رہے ہیں عاشقانِ مصطَفٰے واہ وا کیا خوب قسمت مل گئی
غم مدینے کا جسے بھی مل گیا دو جہاں کی اُس کو نعمت مل گئی
تاجِ شاھی اُس کے آگے ہیچ ہے مصطَفٰے کی جس کو الفت مل گئی
ہم کو فَیضانِ مدینہ مل گیا کیسی اعلیٰ ہم کو نِعمت مل گئی
میں مدینے میں مَروں اِس حال میں سب کہیں اِس کو شہادت مل گئی
المدینہ چل مدینہ‘‘ جھوم کر جب پکارا دل کو راحت مل گئی
جب تڑپ کریارسولَ اللہ کہا فوراً آقا کی حمایت مل گئی
اَنبیا سارے کھڑے ہیں صَف بہ صَف میرے آقا کو اِمامت مل گئی
خاکِ طیبہ سے کِیا جس نے علاج ہر مَرض سے اس کو راحت مل گئی
میری قسمت کی یِہی مِعراج ہے اُن کے کَفْشِ پا سے نسبت مل گئی
دونوں عالَم میں ہُوا وہ سُرخرو جس کو ان کی چشمِ رَحمت مل گئی
میں امام احمدرضا کا ہوں غلام کتنی اعلیٰ مجھ کو نسبت مل گئی
راہِ سنّت میں ہُوا جو بھی ذلیل اُس کو اُن کے در سے عزّت مل گئی
تھے گُنہ حد سے سوا عطارؔ کے ان کے صَدقے پھر بھی جنّت مل گئی
کیوں نہ رَشک آئے ہمیں عطارؔ پر اس کو طیبہ کی اجازت مل گئی