میری قسمت جگانے کو نبی کا نام کافی ہے ہزاروں غم مٹانے کو نبی کا نام کافی ہے
غموں کی دھوپ ہو یا پھر ہوائیں تیز چلتی ہوں میرے اس آشیانے کو نبی کا نام کافی ہے
خوشی ہو یا کوئی غم ہو نبی کا نام لیتا ہوں کہ ہر اک غم مٹانے کو نبی کا نام کافی ہے
نبی کا نام لیتا ہوں سکونِ قلب ملتا ہے نبی کے اس دیوانے کو نبی کا نام کافی ہے
جو پوچھا کملی والے نے کہا صدیق اکبر نے میرے سارے گھرانے کو نبی کا نام کافی ہے
سلگتی آگ پہ حبشی کے ہونٹوں سے صدا آئی میری بگڑی بنانے کو نبی کا نام کافی ہے
یہی کہتا ہے مہکی بھی یہی سب لوگ کہتے ہیں کہ اس سارے زمانے کو نبی کا نام کافی ہے