میں تو ہر حال میں خوش رہوں آپؐ سے میں جو مرنے لگوں جی اٹھوں آپؐ سے
کامرانی بھی پھر پاؤں چومے مری ابتدا کام کی جو کروں آپؐ سے
آپؐ ہیں آسرا بے کسوں کے لیے ظلم کا ہر نشاں سرنگوں آپؐ سے
خواب ہی میں عطا ہو یہ اعزاز بھی کچھ کہوں آپؐ سے کچھ سنوں آپؐ سے
ایک نسبت سے پہچانے دنیا مجھے میں جو قائم ہوں نقویؔ بنوں آپؐ سے