منگتوں کو سلطان بنایا میرے کملی والے نے جب اپنا دربار لگایا میرے کمللی والے نے
جس پر اپنا رنگ چڑھایا میرے کملی والے نے داتا فرید اور خواجہ بنایا میرے کملی والے نے
مال و زر کی بات نہیں ہےیہ توکرم کی باتیں ہیں جس کو چاہا در پہ بلایا میرے کملی والے نے
جس کو حقارت سے دنیانے دیکھا اور منہ پھیر لیا اس کو بھی سینے سے لگایا میرے کملی والے نے
جتنا خرچ میں کرتا جاؤں اُتنا بڑھتا جاۓ ہے بخش دیا ایسا سرمایہ میرے کملی والے نے
دشمن کی بھی پیاس بجھائی اپنے بھی سیراب ہوۓ وہ رحمت کا دریا بہایا میرے کملی والے نے
غم کی دھوپ تھی میرے سرپر اور پریشاں حال تھا میں مجھ کو دیا رحمت کا سایا میرے کملی والے نے
خود تو ٹھہرے ختم الرسل اور غوث پیا جیلانی کو ولیوں کا سردار بنایا میرے کملی والے نے
صحرا صحرا پھول کھلاۓ نقشِ قدم کی برکت سے دنیا کو گلزار بنایا میرے کملی والے نے
اُن کا تصور کرتے کرتےمیں بھی مدینے جا پہنچا مجھ پہ خاص کرم فرمایا میرے کملی والے نے
نعت علیم زباں پر آئی میری قسمت جاگ اٹھی میرے نام کو بھی چمکایا میرے کملی والے نے