میں بہک سکوں یہ مجال کیا میرا رہنما کوئی اور ہے مجھے خوب جان لیں منزلیں یہ شکستہ پاکوئی اورہے
جو تمہاری جالی سے متصل ہے ستوں کے پیچھے کھجل کھجل نہیں میں نہیں وہ مریض دل نہ میرے سوا کوئی اور ہے
میری التجا ہےیہ دوستو کبھی تم جو سُوۓ حرم چلو تو بنا کے سر کو قدم چلو کہ یہ راستہ کوئی اور ہے
ہے تجھے خبر شہہ این و آں میری وجہ راحتِ قلب و جاں نہ تیرے سوا کوئی اور تھا نہ تیرے سوا کوئی اور ہے
یہ گمان تھا کئ سال سے یہ یقین ہے کئ روز سے میرے دل سے گنبدِ سبز کا یہ معاملہ کوئی اور ہے
وہ حبیب ربِ کریم ہےوہ روف ہے وہ رحیم ہے انہیں فکر ہے میری آپ کی انہیں چاہتا کوئی اور ہے
میں جو دور ارض حرم سے تھا ہوئی خلدِ گوش حسیں صدا ہے اسی میں ماجدِ بے نوا کہ یہ قافلہ کوئی اور ہے