مدینے مجھے بھی بلا کملی والے مقدر میرا بھی جگا کملی والے
تری ذات اقدس بہت ذی کرم ہے تو شاہِ عرب ہے تو شاہِ امم ہے تراغم کے ماروں پہ پیہم کرم ہے مرا غم بھی دل سے مٹا کملی والے
یہ سچ ہے بہت ہی گنہگار ہوں میں سیاہ کار ہوں میں خطاکار ہوں میں تری رحمتوں کا طلب گار ہوں میں مجھے بھی کرم سے نبھا کملی والے
وہ ابنِ علی تیرا پیارا نواسہ رہا کربلا میں جو بھوکا وپیاسا بھرم جس نے رکھا خدا کی رضا کا مجھے اُس کا صدقہ دلا کملی والے
سفینہ مرا بحرِ غم میں گھرا ہے ہے طوفاں کی یورش محالف ہوا ہے سفینے کا میرے تو ہی ناخدا ہے میرا پار بیڑا لگا کملی والے
زمانے میں کوئی بھی میرا نہیں ہے مقدر میں میرے سویرا نہیں ہے کہیں عافیت کا بھی ڈیرا نہیں ہے مجھے میری منزل بتا کملی والے
کرم اتنا کر دے مدینہ دکھا دے میری پیاس دل کی بھی آقا مٹا دے مجھے بھی نواسوں کی اپنے عطا دے کہ عابدؔ کو اپنا بنا کملی والے