میں کیسے نہ مچلوں میں کیسے نہ جھوموں مدینے کا منظر میرے سامنے ہے جو خوابوں خیالوں میں بستا تھا میرے وہ تعبیر بن کر میرے سامنے ہے
دل وجاں کا کعبہ جو میں نے بنایا خدا نے مجھے وہ حسیں در دکھایا مجھے اب نہیں ہے مقدرسے شکوہ مرا تو مقدر میرے سامنے ہے
خوشی سے کریں کیوں نہ جزبات مجرا کہ ہے روبرو میرے آقا کا حجرہ کہاں آتا جاتا تھا روح الامیں بھی محمدﷺ کا وہ گھر میرے سامنے ہے
جہاں تاجور بن کے آئیں سوالی جہاں گونجتی تھی اذانِ بلالی جہاں آپ دیتےتھے خطبات اکثروہ مسجد وہ منبر میرے سامنے ہے
تصور میں آئیں وہ صدیوں کی باتیں وہ فخردوعالم کےدن اور راتیں مجھےلگ رہا ہے تصورمیں جیسےرسولوں کا افسر میرے سامنے ہے
جو وقتِ سحرمیں نے قرآں کو کھولا جو میں نے عقیدت کی آنکھوں سے دیکھا مجھے یوں لگا اس کی سطروں کے پیچھے وہ زلفِ معنبر میرے سامنے ہے
کھڑا ہوں میں ناصرؔ درِ مصطفیٰ پر کے کتنا کرم مصطفیٰ کا گدا پر چمک جس سے پائی ہے شمس و قمرنے وہ مہرِمنور میرے سامنے ہے