مانگ لو جو کچھ تمہیں درکار ہے میرے آقا کا سخی دربار ہے
حاضِرِ دربار ہوں میرے طبیب دردِ عِصیاں کی دوا درکار ہے
کثرتِ خَندہ سے دل مُردہ ہوا تجھ سے فریاد اے شہِہ اَبرار ہے
قہقہہ تم مت لگاؤ بھائیو! گر لحاظِ گِریۂ سرکار ہے
ذکرِ حق میں لب کو بس مشغول رکھ راحتِ دل گر تجھے درکار ہے
دیجئے ’’قُفلِ مدینہ‘‘ یہ غلام آہ! بداَطوار و بدگُفتار ہے
عُمر گھٹتی جا رہی ہے آہ! نفس! گرم عصیاں کا مگر بازار ہے
دیس کا گورِ غریباں آہ! آہ! موت طیبہ کی مجھے درکار ہے
لاج رکھنا حشر میں بدکار کی تیرا بندہ ہے گو بداطوار ہے
جانکنی کا وقت ہے یامصطَفٰے جاں بلب اب طالبِ دیدار ہے
آپ کے قدموں میں گر کر موت کی آرزو یاسیِّدِ ابرار ہے
مغفِرت فرما طفیلِ مُرشِدی یہ دعا تجھ سے مرے غفّار ہے
بُلبلو! تم کو مبارَک پھول ہو بس گیا طیبہ کا دل میں خار ہے
کیا کروں میں دیکھ کر رنگِ چمن دشتِ طیبہ سے مجھے تو پیار ہے
سبز گنبد کی ضِیائیں مرحبا مرحبا پُرنور ہر مینار ہے
جگمگاتا ہے مدینہ رات دن سبز گنبد مَنبعِ انوار ہے
جس کی تُربت ہے بقیعِ پاک میں اُس کو حاصل قُربتِ سرکار ہے
مصطَفٰے اِس روز آئے اس لئے عیدِ میلادُ النبی سے پیار ہے
مرحبا! آقا کی آمد مرحبا! ہم کو اس نعرے سے بے حد پیار ہے
جو کوئی گستاخ ہے سرکار کا وہ ہمیشہ کے لئے فِی النّار ہے
دشمنوں کا تنگ گھیرا ہو گیا رَحم کی درخواست اب سرکار ہے
آہ! دشمن خون کا پیاسا ہوا یانبی! تیری مدد درکار ہے
حاسدوں کو دے ہدایت یاخدا اُس کا صدقہ جو مِرا غمخوار ہے
غوث کے دامن میں عطّارؔ آگیا دو جہاں میں اس کا بیڑا پار ہے