لب وا ہیں، آنکھیں بند ہیں، پھیلی ہیں جھولیاں
کتنے مزے کی بھیک تِرے پاک در کی ہے
گھیرا اندھیریوں نے دہائی ہے چاند کی
تنہا ہوں، کالی رات ہے، منزل خطر کی ہے
قسمت میں لاکھ پیچ ہوں، سو بل، ہزار کج
یہ ساری گتھی اِک تِری سیدھی نظر کی ہے
ایسی بندھی نصیب کھلے مشکلیں کھلیں
دونوں جہاں میں دھوم تمہاری کمر کی ہے
جنّت نہ دیں، نہ دیں، تِری رویت ہو خیر سے
اس گُل کے آگے کس کو ہوس برگ و بر کی ہے
شربت نہ دیں، نہ دیں، تو کرے بات لطف سے
یہ شہد ہو تو پھر کسے پَروا شکر کی ہے
میں خانہ زاد کہنہ ہوں صورت لکھی ہوئی
بندوں، کنیزوں میں مِرے مادر پدر کی ہے
منگتا کا ہاتھ اٹھتے ہی داتا کی دین تھی
دوری قبول و عرض میں بس ہاتھ بھر کی ہے
سنکی وہ دیکھ بادِ شفاعت کہ دے ہوا
یہ آبرو رضؔا تِرے دامانِ تر کی ہے