کیا تھا جو آقا مجھے قدموں میں بلا لیتے بلوا کے مجھے اپنی چوکھٹ پہ بٹھا لیتے
کیا تیرا بگڑ جاتا بگڑی میری بن جاتی مقصود اگر ہم بھی اس زیست کا پا لیتے
گلیوں میں پھرا کرتے، گنبد کو تکا کرتے اس شہر کی مٹی کو آنکھوں میں سجا لیتے
پھر میں درِ اقدس پہ بس یونہی پڑا رہتا اور جان نکل جاتی میت کو اٹھا لیتے
اَظہرؔ بھی ترے در کےکتوں میں سےہوجاتا گراس کو مدینے کی گلیوں میں بٹھا لیتے