کوئی سلیقہ ہے آرزو کا نہ بندگی میری بندگی ہے یہ سب تمہارا کرم ہے آقا کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے
کسی کا احسان کیوں اٹھائیں کسی کو حال کیوں بتائیں تمہی سے مانگیں تمہی تو دو گے تمہارے در سے ہی لو لگی ہے
تجلیوں کے کفیل تم ہو مرادِ قلب خلیل تم ہو خدا کی روشن دلیل تم ہو یہ سب تمہاری ہی روشنی ہے
تمہی ہو روحِ روانِ ہستی، سکوں نظر کا، دلوں کی مستی ہے دو جہاں کی بہار تم سے تمہی سے پھولوں میں تازگی ہے
شعور و فکر و نظر کے دعوے حد تعین سے بڑھ نہ پائے نہ چھو سکے ان بلندیوں کو جہاں مقام محمدی ہے
نظر نظر رحمت سراپا ادا ادا غیرت مسیحا ضمیر مردہ بھی جی اٹھے ہیں جدھر تمہاری نظر اٹھی ہے
عمل میں میرے اساس کیا ہے بجز ندامت کے پاس کیا ہے رہے سلامت تمہاری نسبت مرا تو اک آسرا یہی ہے
عطا کیا مجھ کو دردِ اُلفت کہاں تھی یہ پر خطا کی قسمت میں اس کرم کے کہاں تھا قابل حضور کی بندہ پروری ہے
انہی کے در سے خدا ملا ہے انہیں سے اس کا پتہ چلا ہے وہ آئینہ جو خدا نما ہے جمال حسن حضور ہی ہے