کوہِ فاراں پہ خورشیدِ غار حرا، جب ہوا جلوہ گر دیکھتے دیکھتے پر تو نورِحق سے درخشاں ہوا، نجمِ بختِ بشر دیکھتے دیکھتے
آرزوۓ خلیل آج پوری ہوئی، کائناتِ دل و روح نوری ہوئی زندگی جاگ اٹھی، روشنی ہوگئی، تابہ حدِ نظر دیکھتے دیکھتے
زیست صحرا تھی صحرا سے گلشن ہوئی، شمع عرفان وایقاں کی روشن ہوئی سربسر تھے جو ہر بات سےبےخبر، ہوگۓ باخبر دیکھتے دیکھتے
روحِ انساں سقیم اور بیمار تھی، رہنِ اوہام تھی، وقفِ آزار تھی رحمتِ حق تعالیٰ کو جوش آگیا، مل گیا چارہ گر دیکھتے دیکھتے
دیکھتے دیکھتے انقلاب آگیا، پھول مہکے چمن پر شباب آگیا ڈھل گۓ رند قوسِ قزح میں سبھی، رنگِ شام و سحر دیکھتے دیکھتے
شرق سے غرب تک شور برپا ہوا، ایک امی لقب شہر علم آگیا اس کے فیضان سے کم نظر، بے ہنر، ہوگۓ نکتہ ور دیکھتے دیکھتے
جس طرف سے بھی گزرے شہِ حشم جس نے بھی سرور دیںؐ کے چومے قدم آسماں ہوگئی، کہکشاں بن گئی، ایک اک رہگزر دیکھتے دیکھتے
واپس آۓ تو بستر ابھی گرم تھا اور زنجیرِ درمیں تھی جنبش ابھی فرش سے عرش تک، عرش سےفرش تک ہوگیا طے سفر دیکھتے دیکھتے
جس کو کہتے ہیں سب لوگ شہرِ نبیؐ، روکشِ خلد ہے جس کی ایک اک گلی میں نہایا ہوں اک سیلِ انوار میں اس کے دیوار و در دیکھتے دیکھتے
کملی والے کا یزدانی احسان ہے ابنِ آدم پہ بارانِ فیضان ہے پتھروں سے بھی بدتر جو انسان تھے ہو گۓ وہ گہر دیکھتے دیکھتے