کیا ربیع الاول آیا لے کے تحفہ نور کا جس نے دیکھا ہوگیا وہ دل سے شیدا نورکا
بارہویں تاریخ کو چمکا جو تارا نور کا مٹ گئیں تاریکیاں پھیلا اجالا نور کا
گلشنِ اسلام میں کیا پھول پھولا نور کا جس کو دیکھو اب وہی پڑھتا ہےکلمہ نور کا
محفلِ میلاد پر ہے شامیانہ نور کا کیوں نہ آنکھوں میں سماۓ آستانہ نور کا
شمس ابھرے ڈوب کر دیکھا کرشمہ نور کا چاند دو ٹکڑے ہوا پا کر اشارہ نور کا
کیا کمی ہے نور کی اور کیا ہے توڑا نور کا بٹ رہا ہے ہر طرف توڑے پہ توڑا نور کا
فیض احمد سے ملا محمود ورثہ نور کا شکر ہے بخشا ہمیں تو نے گھرانہ نور کا