کھلا ہے سبھی کے لیے باب رحمت وہاں کوئی رتبے میں ادنیی نہ عالی
مرادوں سے دامن نہیں کوئی خالی قطاریں لگاۓ کھڑے ہیں سوالی
میں پہلے پہل جب مدینے گیا تھا تو تھی دل کی حالت تڑپ جانے والی
وہ دربار سچ مچ میرے سامنے تھا ابھی تک تصور تھا جس کا خیالی
جو اک ہاتھ سے دل کو تھامے ہوۓ تھا تو تھی دوسرے ہاتھ روضہ کی جالی
دعا کے لۓ ہاتھ اٹھتے تو کیسے نہ یہ ہاتھ خالی نہ وہ ہاتھ خالی
دھنی اپنی قسمت کا ہے تو وہی ہے دیار نبی ﷺ جس نےآنکھوں سے دیکھا
مقدر ہے سچا مقدر اسی کا نگاہِ کرم جس پہ آقا ﷺ نے ڈالی
میں توصیف سرکار ﷺ کر تو رہا ہوں مگر اپنی اوقات سے باخبر ہوں
میں بس ایک ادنیٰ ثناء خواں ہوں ان کا کہاں میں کہاں نعتِ اقبالِ عالی