خدا کے بعد صاحب زمانوں سب جہانوں کا قبالہ نام ہے جس کے مکانوں لامکانوں کا
دھڑکتا ہے دل بیدار و بینا جس کے سینے میں جو خازن ہے زمینوں آسمانوں کے خزانوں کا
زباں ہر دل کی سمجھے وہ زباں دانِ ہمہ عالم لبِ اظہار سارے بے نواؤں، بے زبانوں کا
دریں چہ شک کہ پیشِ آہنگ ہے وہ رہتی دنیا تک شعور و شوق و سرمستی کے سارے کاروانوں کا
بنایا جس نے آسمانوں کو افراد ایک ہی گھر کے مٹایا جس نے سب بے جا تفاخر خاندانوں کا
کرے خونِ جگر سے آبیادی کشتِ ویراں کی مزاج اس کو معیشت نے دیا ہے باغبانوں کا
دیا توحید کا پیغام اس نے بت پرستوں کو کیا تبدیل رخ اس نے دلوں کے بادبانوں کا
کھینچیں بے ساختہ اس کی طرف درماندہ راندہ ہے ذات اس کی حسار عافیت بے خانمانوں کا