خود کو شبِ فرقت میں مشکل سے سنبھالا ہے منظر یہ حضوری کا اب دیکھنے والا ہے
ہونٹوں پہ درودوں کا مہکا ہوا یہ موسم ہاتھوں میں عقیدت کے جزبات کی مالا ہے
یہ شہر پیمبر ہےلے سانس بھی آہستہ رحمت کی گھٹائیں ہیں انوار کا ہالہ ہے
آنکھیں مری جھک جھک کرجالی سے لپٹتی ہیں کیا وجد کا عالم ہے کیا کیف نرالا ہے
اوقات مری کیا ہے کیا نام و نسب میرا اس در کا میں منگتا ہوں کیا کم یہ حوالہ ہے
مرکر بھی پڑے رہنا سرکار کی چاکھٹ پر کیا خوب غلامی کا مفہوم نکالا ہے
مفلس ہے ریاض آقا ہر ایک حوالے سے آغوش مصائب میں دکھ درد نے پالا ہے