خموشیوں میں سلیقے، صدا کے رکھے ہیں ان آنسوؤں میں قرینے دعا کے رکھے ہیں
فلک کی آکھ بھی طیبہ کو رشک سے دیکھے وہاں کسی نے ستارے بچھاکے رکھے ہیں
وہ ان کے پیار کی شبنم سے پا رہے ہیں نمو جو پھول شاخ دعا پر کھلا کے رکھے ہیں
نثار ہونا ہے ان کو سنہری جالی پر یہ اشک آپؐ کی خاطر بچاکے رکھے ہیں
ہمیشہ نور کی بارش مرے مدینے میں یہاں چراغ جو غار حرا کے رکھے ہیں
عمل کا شوق عطا ہو کہ ہر سمت میں پیام آج بھی صلِ علیٰ کے رکھے ہیں
مرے حضورؐ کی مسجد کا صحن، گنبدِ پاک نظر میں کیسے مناظر سجاکے رکھے ہیں