کعبہ میرے دل میں ہے مدینہ ہے نظر میں اب کون سی رونق کی کمی ہے میرے گھر میں
کٹتے ہیں شب و روز مدینے کے سفر میں میں گھر میں ہوں اور فکر ونظرراہ گزر میں
ہر گام پہ آنکھوں سے ٹپک جاتے ہیں سجدے کچھ ایسے مقام آتے ہیں طیبہ کے سفر میں
اُس درپہ دعاؤں کی ضرورت نہیں ہوتی تھوڑا سا سلیقہ ہو اگر دیدہء تر میں
اُس شہر سے سورج بھی گزرتا ہے مودب کچھ ایسے مقام آتے ہیں طیبہ کے سفر میں
اُس در کے ہادی کا کہا بھی تو رہے یاد احرام ہی کافی نہیں کعبے کےسفر میں
کعبے میں تو بے شک کوئی بت نہ ملے گا کچھ بت ابھی باقی ہیں مگر ذہنِ بشر میں
مر جاؤں تو اقبالؔ مجھے خلد کے بدلے تھوڑی سی زمیں چاہیےآقا کے نگر میں