جو نام صفِ پاک رسولاں میں جلی ہے اس نام سے دنیا کی ہر اک بات چلی ہے
تخلیقِ دو عالم کا سبب ہے یہی دنیا اس نورِ رسالتؐ کی تجلی ازلی ہے
ہے محوِ طوافِ درِ محبوبؐ الہٰی اک حسرت پاکیزہ کہ پھولوں میں پلی ہے
سایہ بھی اسے چھو لے تو ہو جاۓ فروزاں وہ شکل کہ انوار کے سانچے میں ڈھلی ہے
بخشش بھی اسی رہ میں منزل میں اسی پر اک قلزم انعام مدینے کی گلی ہے
خوشبوۓ گلستانِ شہنشاہِ دو عالمؐ خاطر مجھے بطحا کی طرف لےکے چلی ہے