جو کسی عطا نے خطا کے داغ تمام عمر کے دھو دیے تو قتیل شکر نے جوشِ اشک سے شش جہات بھگو دیے
چلے قافلے لیے آبلے، بڑھے حوصلے گھٹے فاصلے وہ نصیب والےتھے وقت نے جنہیں دن یہ دیکھنے کو دیے
تھیں عزیز جاں سے جو منزلیں تو عزیز تر رہیں مشکلیں کہ انہیں سے نظمِ حیات کو نۓ عزم دینے تھے سو دیے
کبھی جستجو کبھی گفتگو کبھی کوبکو کبھی روبرو وہ ہزار شوق کے رنگ تھے جو کسی نے جاں میں سمو دیے
کبھی دیکھنا، کبھی بھیپنا، کبھی مانگنا، کبھی سوچنا کبھی ضبطِ حال میں کھوگۓ کبھی فرطِ شوق سےرو دیے
وہ درِ کرم ، وہ رہِ نعم، وہ شب حرم وہ وفورِ نم جو متاعِ فکر تھے وقت نے وہی خواب آںکھ میں بو دیے
وہی بے کلی، وہی تشنگی، وہی بے بسی، وہی خستگی جو نکل چکے تھے معتبر وہی مرے وجود نے کھو دیے
یہ عیاں ہے آصفِ ناتواں، ترے دل میں درد ہےاک نہاں تو عجب ہے کیا ھو حروفِ لب سبھی خونِ دل میں ڈبو دیے