جلوۂ یار اِدھر بھی کوئی پھیرا تیرا حسرتیں آٹھ پہر تکتی ہیں رَستہ تیرا
کس کے دامن میں چھپے کس کے قدم پر لوٹے تیرا سگ جائے کہاں چھوڑ کے ٹکڑا تیرا
نیک اچھے ہیں کہ اَعمال ہیں ان کے اچھے ہم بدوں کے لئے کافی ہے بھروسا تیرا
خارِ صحرائے نبی پاؤں سے کیا کام تجھے آ مِری جان مِرے دل میں ہے رستہ تیرا
ہائے پھر خندۂ بے جا مِرے لب پر آیا ہائے پھر بھول گیا راتوں کا رونا تیرا
سوزنِ گمشدہ ملتی ہے تبسم سے تِرے شام کو صبح بناتا ہے اُجالا تیرا
اے مدینے کی ہوا دِل مِرا اَفسردہ ہے سوکھی کلیوں کو کھلا جاتا ہے جھونکا تیرا