جہاں پیوندِ ظلمت بن گۓ روزن مکانوں کے وہیں کھولے گۓ سارے دریچے آسماںوں کے
اک اندھی رات تھی جو ریت پر لہریں بناتی تھی اور ان میں جذب ہوجاتے تھے نغمے ساربانوں کے
سراۓ دہر میں مہمان تھےصدیوں کے سناٹے تمہارا نام لے کر کارواں اترے اذانوں کے
تمہاری رہ گزر میں کوئی جتنی دور جاتا ہے اسی نسبت سے دل پر بھید کھلتے ہیں جہانوں کے
مخالف سمت جائیں تو سفینے ٹوٹ جاتے ہیں مدینے کی طرف رخ پھر رہے ہیں بادبانوں کے
کتابِ زندگی رکھتے ہیں تابِ زندگی کم ہے نۓ کردار ہیں ہم لوگ اگلی داستانوں کے