جب تصور میں کبھی شہر مدینہ آیا دل کے آنگن میں بہاروں کا مہینہ آیا
مل گئی جس کو گدائی درِ اقدس کی اس کے ہاتھوں میں دوعالم کا خزینہ آیا
بحر موّج سے بس اسم محمد کے طفیل بچ کے گرداب سے، ساحل پہ سفینہ آیا
جب کبھی اپنےگناہوں پہ ذرا غورکیا مجھ کو احساس ندامت سے پسینہ آیا
میری جانب بھی تصرف کی نظرہو جاۓ آس لے کر درِ اقدس پہ کمینہ آیا
آپ کے درس صداقت کی بدولت عارف اہل دنیا کو ہے جینے کا قرینہ آیا