جب میرے دل کا درد، الم تک پہنچ گیا میں خود بخود ہی انؐ کے کرم تک پہنچ گیا
یہ بھی نصیب ہی کی تو ہے بات دوستو جو سر جھکا تو انؐ کے قدم تک پہنچ گیا
قاصر رہی زبان جو کہنے سے مدعا احوالِ دل تو دیدۃ نم تک پہنچ گیا
سمجھوں گا میں کہ مل گئی معراج مجھ کو بھی جذبہ مرا جو شاہِ امم تک پہنچ گیا
دیجے اب اذن گنبدِ خضریٰ کی دید کا عاصی یہ آپؐ کا تو حرم تک پہنچ گیا
آۓ ہیں عزمیؔ بہر پذیرائی بھر سروش پڑھتا درود میں جو عدم تک پہنچ گیا