جب گنبد خضریٰ پر پہلی نظر گئی آنکھوں کے راستے میرے دل میں اتر گئی
سرخم تھا لب خاموش تھےآنکھیں تھی اشکبار اک ساعت بے دارتھی جو کہ گزرگئی
طیبہ سی لٹنا کسی عاشق سےپوچھئے ایسا لگا کہ روح بدن سے گزرگئی
برسی تھی اس قدر کہ نہا سا گیاادھر وہ بارش کرم میرےداماں کو بھرگئی
دل بھی ہے شاد شادطبیعت ہے پر بہار لگتا ہے آج مدینے میری خبر گئی
آواز عبید تیری پہ فیضان نعت ہی سینوں میں عاشقان نبی کے اترگئی